واپس >> عنوان

مراتبِ تجلیات

جان لے کہ تجلی جہاں نمائے انسان (انسانی قلب و نظر) پر اﷲ تعالی کا ظاہر ہونا ہے یہ کئی طرح کی ہوتی ہے خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں خواہ ان کے سوا کسی اور عالم میں ۔جو تمام مخلوقات کے فنا و ہلاکت کی جگہ ہے۔ مراتب تجلیات چار ہیں (۱) تجلیات آثاری (۲) تجلیات نوری یاافعالی (۳) تجلیات صفاتی (۴) تجلیات ذاتی ۔

(۱) تجلیات آثاری

اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو اس صورت میں دیکھے جسے سالک کا ظاہری احساس ادراک کرسکے اس تجلی کی سب سے آخری حد یہ کہ حق تعالیٰ کو انسانی صورت میں دیکھے اور اس کا بھی کمال یہ ہے کہ انسانِ کامل کی صورت میں ہو چنانچہ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ

رَئَیْتُ رَبِّیْ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھ لیا یہاںبہترین صورت انسانِ کامل و جامع کی صورت ہے (قرآنی الفاظ سورۂ ا لتین) احسن تقویم کا بھی یہی مطلب ہے ۔

یہاں پر استعمال ہونے والے لفظ صورت سے تم یہ تصور نہ کرو کہ یہ کوئی حسی صورت ہے بلکہ یہاں صورت سے مراد وہ صورت ہے جسے تم آئینے میں دیکھتے ہو چنانچہ ہر صورت کی کوئی نہ کوئی کثافت ہوتی ہے مگر آئینے میں نظر آنے والی صورت کی کو ئی کثافت نہیں ہوتی یوں اس سصورت سے کثافت کی نفی کی جا سکتی ہے ۔

جان لے کہ سالک اپنی بساط اور قدرت کے مطابق حق تعالی کا ادراک کرسکتا ہے نہ کہ اﷲ تعالی کی قدرت و قدر کے تحت۔ جب سالک اپنی بشری صفات سے الگ ہوجاتا ہے تو وہ بلا کسی کیوں کیسے جیسے اعتراضات کے دیکھ لیتا ہے لیکن تمام سالک ہر وقت صفات بشری سے جدا نہیں ہوسکتا ؎

اگر درویش بر یک حال ماندی

سر دست از دو عالم بر فشاندی

اگر درویش ایک ہی حالت پر ساکن رہے تو وہ دونوں جہانوں سے ہاتھ اٹھا لیں گے ۔

(۲) تجلیات نوری و افعالی

جان لے کہ جس چیز کو حسِّ ظاہری ادراک نہ کر سکے مثلاً انوارِ متلونہ ، ملائکہ ، اور روحانیات وغیرہ اس میں حق تعالی دکھائی دے اسے تجلی افعالی کہتے ہیں اس کی انتہائی حالت خالقیت و رزاقیت وغیرہ ۔ اسمائے صفات افعالی ہیںکہ حق تعالی کو اس طرح دیکھ لیتا ہے یا خود کو اس کا مظہر دیکھتا ہے ۔

(۳)تجلیاتِ صفاتی

یہ اس طرح ہے کہ حق تعالی کو اس کے صفاتِ ذاتی جیسے علیم (جاننے والا )، حی(زندہ) ، مرید(ارادہ کرنے والا ) ، قدیر (قدرت والا) ، سمیع (سننے والا )، بصیر (دیکھنے والا)، کلیم(بولنے والا) اور حکیم (دانا ) جیسے صفات میں دیکھے یہ اﷲ تعالی کے ذاتی صفات ہیں اور اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں اگر کسی وجود میں یہ صفات نہ ہوں تو وہ اور جمادات برابر ہوتے ہیں اس تجلی کی انتہا یہ ہے کہ کہ سالک خود کو ان صفات سے موصوف اور ان اخلاق سے متخلق مشاہدہ کرتا ہے اس مقام کے تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے سالک کے لئے محض اشارہ ہی کافی ہے ۔

(۴)تجلیات ذاتی

تجلیات ذاتی فنا فی اﷲ کی جانب اشارہ ہے اور اس مقام میں سالک کا تجلی بے چوں (کیسا؟) اور بے چگونہ (کس طرح؟) ہوتا ہے وہ انتہائی قرب الہی کی وجہ سے خود اپنی ذات کے ادراک سے بھی قاصر ہو تا ہے کیونکہ اس قدر قرب وحدت کا موجب ہوتا ہے ؎

چو مبصر با بصر نزدیک گردد

بصر از دیدنش تاریک گردد

یعنی دیکھنے کے لئے مناسب فاصلہ ضروری ہے جب آدمی اپنی آنکھ سے بیحد نزدیک ہو جائے تو اس کی آنکھ اس کو دیکھ لینے سے قاصر رہتی ہے۔

کبھی وہ خود کو سمندر دیکھتا ہے ، کبھی خود کو وجود مطلق ۔ یہ عینِ ہویت ہے اور عین ہویت عین انانیت ہے اور ا نانیت رتبے کے لحاظ سے عین ہویت ہے۔ یہ دونوں مراتب جو سالکین کے انتہائی بلند مراتب میں سے ہیں ان سے بلند کوئی مرتبہ نہیں ہے لیکن شرف کے لحاظ سے احدیت الجمع سے بلند کوئی مرتبہ نہیں جو بقا باﷲ اور مقام محمدی ہے یعنی مقام انسانِ کامل ۔

kendo.mobile.Application(document.body); cument.body); body); kendo.mobile.Application(document.body); cument.body);