جب سا لک میں قسم قسم کے مختلف استعدا د پیدا ہوتا ہے تو اسے سیاہ رنگ کے دستار اور سیاہ لباس عطا کیا جاتا ہے کیونکہ لباسِ سیاہ پہننا شریعت میں مستحب ہے اس کے بارے میں احادیث مبارکہ وارد ہیں جیسا کہ مشکوۃ المصابیح میں ہے کہ :
اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ خَطَبَ وَ عَلَیْہِ عَمَامَۃُ السَّوْدَائَ قَدْ اَ رَ طَرَفَیْھَابَیْنَ کِتْفَیْہِ
رسول اﷲ ؐ نے خطبہ دیا اس وقت سیاہ رنگ کاعمامہ پہنا ہوا تھامیں نے شملہ کاندھوں کے درمیان لٹکے دیکھا
اسی طرح جامع الاصول کے کتاب اللباس میں حضرت عمرو بن حریث سے نقل ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ :
رَئَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ عَلَیْہِ عَمَامَۃُ السَّوْدَائَ قَدْ اَ رَ طَرَفَیْھَابَیْنَ کِتْفَیْہِ
میں نے سول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو سیاہ نگ کا عمامہ پہنے دیکھاشملہ کاندھوں کے درمیان لٹک رہا تھا
اس کو ابوداؤد نے بھی روایت کی ہے اور نسائی کی روایت میں ہے کہ :
رَئَیْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ عَلَیْہِ عَمَامَۃُ میں نے سول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو فُرْقَانِیَّۃٌ فرقانی عمامہ پہنے ہوئے دیکھا
صحیح مسلم ترمذی ، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے کہ :
اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ وَ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ
عَلَیْہِ عَمَامَۃُ السَّوْدَاء َقَالَ رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّماِذَا رَئَیْتُمْ رَایَاتُ السَّوْدَائِ قَدْ اَقْبَلَتْ مِنْ خُرَاسَانٍ فَاْتُوْھَا وَ لَوْجَثُوْا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّ فِیْہِ خَلِیْفَۃُ اﷲِ الْمَھْدِی
کے دن سیاہ نگ کا عمامہ پہنا ہوا تھارسول اﷲنے فرمایاجس وقت تم خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے آتے دیکھو تو اس کی جانب بڑھو خواہ وہ برف کیوں نہ کیونکہ اس میں خلیفۂ خدا مہدی ہوگا
طریقت کے لحاظ سے لباسِ سیاہ میںآسانی اور سہولت ہے اس کے لئے صابون کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ نیز اس کا پہننا اہل مصیبت سے موافقت بھی ہے چنانچہ حکیم سنائی فرماتے ہیں ؎
صوفیان چون کنند جامہ سیاہ
ھیچ دانی تو درین حکمت شاہ
آن کسانی کہ اھل اسرار اند
ماتم خویش پیش می دارند
صوفیاسیاہ لباس پہنتے ہیں جانتے ہو کہ اس میں ان کی کونسی حکمت ہوتی ہے ؟ در اصل جو لوگ صاحب اسرار ہوتے ہیں یہ محرم راز اپنی حالت پر ماتم کنان ہوتے ہیں ۔
حکمتِ(نجوم)کے لحاظ سے یہ ہے کہ کیونکہ انبیاء ، اولیاء اور مشائخ طبقۂ زحل سے تعلق رکھتے ہیں اور رنگ سیاہ کا اس سے تعلق ہوتا ہے اس مناسبت سے سیاہ پوشی عینِ حکمت ہے۔
حقیقت کی رو سے یہ ہے کہ جب سالک عالم وحدت میں پہنچتا ہے اس وقت وہ تمام رنگوں سے گزر چکا ہوتا ہے اور وہ اس ایک رنگ میں رنگ جاتا ہے اس وقت لباسِ سیاہ پہننا گویا ظاہر کو باطن کے موافق بنانا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب سالک کو نورِ سیاہ دکھائی دیتا ہے تو اسے دستار سیاہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے فقر میں استقامت حاصل ہوگئی ہے چنانچہ وہ سیاہ رنگ لباس پہن کر ایک رنگ میں رنگ جاتا ہے اب وہ راہ فقر کے سوا کوئی اور راہ احتیار نہیں کرسکتا ۔
بعض معاندین یہ تصور کرتے ہیں کہ سیاہ پوشی بدعت ہے یہ اس گروہ کی جہالت ہے جو سالک اس قدر اسرار سے واقف و آگاہ ہو جائے ۔امید ہے کہ وہ اطوار فقرمیں سے ہر طور سے واقف ہو جائے گا خاتم النبوۃ والولایۃ اور ان کے اولادِ امجاد علیہم السلام کے صدقے میں مکاشفین مرتاض کارفیق سعادت معرفت ہوں ۔