جان لے کہ سالک کے چار سیر(روحانی سفر) ہوتے ہیں اول سیر الی اﷲ ، دوم سیر مع اﷲ ، سوم سیر فی اﷲ اور چہارم سیر باﷲ۔
۱۔اول سیر الی اﷲ: یہ سالک کا کثرت سے وحدت کی جانب سفر ہے یہ سفر اکثرعالم فلک میںکثرت کی جانب ہوتا ہے یہ کثرت میں اﷲ تعالی کے وحدت کی جانب سفر کرنا ہے ۔
۲۔دوم سیر مع اﷲ: یہ سفراس وقت ہوتا ہے جب سالک حضرت حق کو دیکھ لیتا ہے مگر اپنے وجود سے غائب نہیں ہوتا(یعنی فنا کا مرحلہ ابھی نہیں آیا) اس وقت اس کا سفر سیر مع اﷲ ہوتا ہے لیکن یہاں رویت میں فنا کی قوت نہیں ہوتی ۔
۳۔سوم سیر فی اﷲ: اس سفر کی خاصیت یہ ہے کہ سالک اپنے وجودِ موہوم کے قطر ے کوبحر احدیت میںپہنچا تا ہے اور افراطِ محبت الہٰی کی بناء پر جس طرح دریا میں قطرہ خود کو نہیں پاتا ، اسی طرح سالک خود کو ہستیٔ حضرت حق میں کھو دیتا ہے یہاں تک کہ اس کے شعور و ادراک کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اس سفر کو سیر فی اﷲ کہتے ہیں کیونکہ یہ سفر دریا کی جانب قطرے کے سفر کی مانند ہے جب فنا کے بعد قطرہ باقی نہیں رہتا (بلکہ صرف دریا ہی دریا رہتا ہے اسی طرح وجودِسالک فنا ہونے کے بعد) حق ہی حق رہتا ہے ؎
قطرہ چون در بحرِِکل افتادہ است فانی زخویش
اسم اعظم خوان دگر وی را و بحرِ بی کران
قطرہ دریا میں گر کر اپنا وجود کھو دیتا ہے اب تم اسے اسم اعظم کہہ دو یا ناپیداکنار سمندر مگر قطرہ بالکل مت کہو۔
کیونکہ مراتبِ وجود کے ہر ہرمرتبے اورہر ہر مرحلے میں سالک پر تجلیات اور شانِ الہی کی تجلی پڑتی ہے جس کے نتیجے میں وہ فنائے کلی پاتا ہے یہی سفر سیر فی اﷲ ہے کیونکہ اﷲ تعالی ہر جگہ موجود ہے ۔
اگرچہ عظیم قابلیت کے حامل سالک کو یہ صلاحیت ابتداء میں حاصل ہوتی ہے لیکن جب بادیۂ طلب کے سرگردان اور فنا فی الطلب کے پیاسے سالک کو تکمیل کی خاطر فنا فی اﷲ سے گزارا جاتا ہے تو اس کا وجودِ موہوم بقائے ذات احدیت میںمضمحل و متزلزل ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر :
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اﷲِ اﷲ کے رنگ میں رنگ جاؤ
سے مشرف ہو کر بقا باﷲ پا تا ہے کیونکہ یہ معنی اس حیثیت سے کہ وہ عالم کثرت کی جانب میلان رکھتا ہے یہ تنزل ہے اور اس حیثیت سے کہ کثرت میں بیگانگی ہوتی ہے ، وہ حضرت حق کو نہیں جانتا در حقیقت ایسا شخص مشرک ہوتا ہے ۔
اب اس نے سب کو چشمِ وحدت سے دیکھ لیا اور اسے یقینِ صادق حاصل ہوا تو وہ حضرت حق پر حقیقی معنوں میںایمان لاتا ہے یہ بت پرستی سے ترقی ہے اور اب یہ کثرت عین وحدت ہی نہیں بلکہ یہ وحدتِ حقیقی بن جاتی ہے یہاں اس میں صفاتِ الہی کا ظہور ہوتا ہے اور وہ شرفِ خلعت ِ:
بِیْ یَسْمَعُ وَ بِیْ یُبْصِرُ وَ بِیْ یَنْطِقُ وَ بِیْ یَمْشِیْ وَ بِیْ یَبْطِشُ (حدیث قدسی)
میری قوت سے سنتا میری آنکھ سے دیکھتا میری زبان سے بولتامیرے پیروں سے چلتا اور میرے ہاتھوں سے کام کرتا ہے
سے مشرف ہوتا ہے ؎
در بشر روپوش گشتہ است آفتاب
فہم کن و َ اﷲ ُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ
آفتاب بشری لبادے میں ملبوس ہوا ہے اسے سمجھ جاؤ اﷲ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔
جان لے! کہ عوالم کلیہ میں سالکین کا سفر مختلف ہوتا ہے بعض وحدت کی جانب سفر کرتے ہیں بعض کثرت کی طرف اور بعض وحدت و کثرت دونوں کی طرف ۔
وحدت کی جانب سفر یوں ہوتا ہے کہ سالک جب وحدت کی جانب سفر کرتے ہوتے چلتا یا اس میں اڑتا(برقرفتاری سے چلتا) ہے اس دوران کثرات ِ محسوسہ و غیر محسوسہ جیسے رقوم ،اجسام ، اعداد، حروف، کلمات اور سالوں کی جانب سالک کی نظر بہت کم پڑتی ہے اس عالم کی تجلیات بے چوں(کیوں ؟کیا؟) و چگونہ(کیسے ؟کس طرح؟) (بے کیف) ہوتی ہیں نادر طور پر کثرت بھی دیکھ سکتا ہے ۔
کثرت کی طرف سفر یوں ہوتا ہے کہ مراتب جسمانی و روحانی میں سالک کثرت کی جانب دیکھتا ہے اس دوران تجلیات مختلف جسمانی یا روحانی صورتوں میں ہوتی ہے اور کبھی نادر طور پرعالمِ وحدت کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے۔
کثرت و وحدت دونوں کی جانب سفر یوں ہوتا ہے کہ سالک پہلے وحدت اور پھر کثرت میں چلتا یا اڑتا ہے یا اس کا الٹ (یعنی کثرت میں پہلے اور وحدت میں بعد) اس سیر میںبسرعت گزرجانا یا ان کی جانب توجہ نہ دینا انتہائی عشق و محبت الہی کی وجہ سے ہے اور ایک ایک مرتبہ و منزل میں کئی کئی سال ،صدیاں اور عرصہ ٔ د راز رہ جانا اس بات کی علامت ہے کہ سالک کو مراتب آفاق و انفس میں مشکلات و دشواریاں درپیش ہیں البتہ وحدت میں اعتدال و ہشیاری کے ساتھ زیادہ رہ جانا بہت اچھی بات ہے ۔مراتب سے سالک کا گزرجانا صحتِ دماغ ، مراقبہ میں تحقیق اور شبہات دور ہو جانے کی علامت ہے ۔
مقامِ ربوبیت ، الوہیت اور سرمدیت میںیہ سفر متعدد سالوں، صدیوں اور زمانوں میں طے ہوتا ہے عالمِ ربوبیت کا ایک دن اس عالم کے بیس ہزارسالوں کے برابراور عالمِ لاہوت کا ایک دن اس عالم کے پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوتاہے لاہوتی سالوں کو سرمدی سال بھی کہتے ہیں وہاں سالوں کے شمار کے لئے ہندسوں کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہاں فنائے محض ہوتا ہے وہاں خداوند علیم ہمیشہ اعداد سے مستغنی و بے نیازہوتاہے وہ جب ایک لمحہ کیلئے گوشۂ چشم سے اس جہاں کی جانب نگاہ ڈالتا ہے تو اولین و آخرین کے تمام محاسب عہدۂ احتساب سے بے دخل ہو جاتے ہیں ربوبیت کے سال سنینِ سرمدی کے مناسب ہوتا ہے لیکن سرمدی عین وحدت میں اور وحدت سرمدیت میں فانی ہوتے ہیں اور ربوبیت کے لئے عین وحدت میں بقائے دائمی حاصل ہوتے ہیں ۔
جان لے کہ سالکین کے مراتب کی بلندی و رفعت سفراورتجلی کی کثرت میں نہیں ہوتی اگر سالک کو تجلی حاصل ہو جس میں وہ فانی و باقی ہو تو یہ سرمدی بقا و فنا ہے یہ مقام اعلی ہے جن کے تمام احوال اس حال میں داخل ہوں ۔
جان لے کہ مراتبِ سفر اور انوارِ تجلیٰ کی ترتیب خوب ہے لیکن اگر مبتدی آخری مرحلے کو اور منتہی ابتدائی مرحلے کو دیکھ لے تو بھی اس میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔