جان لو! جب طالب صادق مرشدِ کامل کی صحبت میں شرفِ توبہ اور تلقین ذکر خفی سے مشرف ہوتا ہے جب اثر ذکر سالک کے باطن میں ابھی ظاہر نہ ہوا ہو اسے ذکر زبانی اور ذکر قلبی کہتے ہیں اس مقام میں سالک کے محسوسات میں سبز ے کا احساس ہوتا ہے اس عالم کا نور سبز ہوتا ہے ۔
اس کے بعد جب سالک کا نفس پاک ہوکر ذکر الہی سے محظوظ ہوتا ہے اور اس کے نفس میں ذکر کا اثر ظاہر ہوتا ہے اس مرتبے میں یہ ذکر ذکرِ نفسی کہلاتا ہے اس عالم کا نور کبوتری (نیلا)رنگ کا ہوتا ہے اور سیر سالک عام عناصر کی آخری حد کو پہنچ جاتا ہے ۔
جب سالک کا دل جو مخزن ِ اسرارِ نامتاناہی ہے ، غبارِ بشریت کو اتار پھینکتا ہے اور ذکر الہی سے متعلق ہو جاتا ہے ۔ذکر پر مداؤمت اور مواظبت کی وجہ سے ذاکر کا دل ذاکر بن جاتا ہے اور منہ وحلق کے بغیر اور زبان (کو حرکت دیے) بغیر دل اپنی جگہ ذکر کرتا ہے چنانچہ ہر کوئی اس کی آوازکو سن سکتا ہے (اس مرحلے میں )ذکر کی آواز قمری کے بولنے کی آواز جیسی ہوتی ہے اس عالم کا نور سرخ ہے اور سیر سالک فلکِ قمر کو پہنچتا ہے اور وہ اہل نجات میں سے ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد سالکین کے کئی درجات ہیں جب ذکر قلبی مکمل اور صاف ہوجاتا ہے (تو اب ذکر)سری بن جاتا ہے اور سالک کا سیر افلاک کو پہنچتا ہے صدائے ذکر سری بھی لوگ سن سکتے ہیں اس کی آواز ایک برتن کے پاس پڑنے والے قدموں کی چاپ جیسی ہوتی ہے ۔اس عالم کا نور زرد ہوتا ہے۔
جب سالک کا سیر افلاک کی انتہاؤں میں پہنچ جا تا ہے ذکر روحی بن جاتا ہے اس کی بھی آوازہوتی ہے (یہ آواز ایسی سنائی دیتی ہے )جیسیے خالی برتن میں دودھ دھوہنے سے آواز پیدا ہوتی ہے ذکر روحی کی آواز ایسی ہی ہوتی ہے اس مقام کا نور نور صاف سفید ہے ۔
جب سالک افلاک سے بھی ترقی کرجاتا ہے اور عالم جبروت کے شروع میں پہنچ جاتا ہے تو ذکر خفی بن جاتا ہے اس ذکر کی بھی آوازہوتی ہے جیسے کھینچے ہوئے ریشمی دھاگے پر مکھی کے بیٹھنے یا کسی چیز کو آہستہ اس پر رکھنے سے پیدا ہونے والی آواز یا جس طرح نرم اور لطیف آواز ہوتی ہے اسی طرح ذکر خفی کی آواز ہوتی ہے اس حقیر نے ذکر سری اور ذکر خفی کی آواز حضرت نوربخش کے دلِ مبارک سے سنی ہے اور خود بھی اسی پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہے اس عالم کا نور سیاہ ہوتا ہے ۔
یہاں پہنچ کر سالک انوار الہی اور نورالانوار حقیقی کی چمک میں ذرہ وار جذب ہوجاتا ہے محبت الہی کے افراط کی وجہ سے سالک خود کو بھی نہیں پاتا اس وقت ذاکر ،اور ذکر عین مذکور بن جاتا ہے ۔ اس مقام میں ذکر خفی ذکر غیب الغیوب کہلاتا ہے یہ نایاب ذکر اصل مطلوب ہوتا ہے اس عالم کا نور بے رنگ ہوتا ہے یہ ایسا نور ہے جو لطیفۂ قالبیہ ، لطیفۂ نفسیہ اور لطیفۂ خفیہ کے مراتب پر چمکتا ہے اور ان مراتب میں سے ہر مرتبہ اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔یہاں سے سالک غیب مطلق میں پہنچ جاتا ہے تمام رنگ اپنے اپنے حقیقت کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کا کوئی رنگ ظاہر نہیں ہوتا اور یہ عالم بے رنگ و بے بو ہوتا ہے ۔